تل ابیب:اسرائیل میں شائع ہونے والی ایک نئی تعلیمی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی نوجوانوں اور ریاست اور اس کے اداروں کے درمیان اعتماد کے سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے۔ اعتماد کا فقدان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اور 54 فیصد نوجوان اسرائیل سے نکلنے پر غور کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر بگاڑ بڑھ گیا ہے اور لوگوں میں ذاتی عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ تحقیق تل ابیب اور جافا میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ای آر آئی) کی طرف سے کی گئی تھی۔ یہ ادارہ مختلف سرکاری وزارتوں کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس تحقیق میں نوجوانوں کی آبادی اور ریاست کے درمیان تعلقات کو ماپنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 52 فیصد نوجوان محسوس کرتے ہیں کہ ریاست امتیازی سلوک کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور 62 فیصد محسوس کرتے ہیں کہ وہ مشکلات کا سامنا کرنے میں اکیلے ہیں۔ 42 فیصد نے کہا کہ وہ اپنی نسل کو بدقسمت سمجھتے ہیں۔اس حوالے سے راشے فنڈ کی ڈپٹی پروگرام ڈائریکٹر یائیل بیلا ایونی نے کہا کہ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ مرکزی علاقے (تل ابیب اور اطراف) اور دیہی علاقوں کے درمیان معیار زندگی میں اب بھی ایک وسیع فرق موجود ہے۔ اس حقیقت کو بدلنے کے لیے حکومت کو گہرا مطالعہ کرنے اور نئے اور جرات مندانہ فیصلے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔جینڈرفنڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ناما میران نے کہا کہ یہ نتائج ان نوجوانوں کی طرف سے ایک زبردست فریاد ہیں۔ یہ نتائج حکام کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2022 میں 18 سے 44 سال کی عمر کے 66 فیصد افراد نے کہا کہ اگر ان کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو تو بھی وہ اسرائیل نہیں چھوڑیں گے۔ اس سال یہ نسبت 46 فیصد تک گر گئی ہے۔ اس سال 54 فیصد شرکا نے کہا ہے کہ وہ ہجرت کے امکان کو عملی طور پر جانچنا چاہیں گے۔مذہبی یہودیوں میں ہجرت نہ کرنے کے خواہشمندوں کا فیصد بڑھ کر 91 فیصد ہوگیا ہے اور غیر مذہبی یہودیوں میں یہ شرح 44 فیصد ہوگئی ہے۔