اسلام آباد: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے صحت اور تعلیم کی سہولت کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو صحت کی سہولیات ان کی دہلیز پر مہیا کریں گے، غریب آدمی کو علاج کی بہترین سہولت ملنی چاہیے، موجودہ حکومت نے صحافیوں کی فلاح و بہود کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں، صحافیوں اور فنکاروں کے لئے صحت کارڈ کا اجرا خوش آئند ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزارت اطلاعات اور سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے اشتراک سے صحافیوں ، میڈیا ورکرز اورفنکاروں کیلئے صحت کارڈ کے اجرائ سے متعلق معاہدے پردستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ، وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے معیشت و توانائی بلال اظہر کیانی ، سیکرٹری اطلاعات و نشریات سہیل علی خان ، چیئرمین سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن شعب جاوید حسین اور دیگر بھی موجود تھے۔وزیراعظم نے کہاکہ صحافیوں اور فنکاروں کیلئے صحت کارڈ کا اجرائ خوش ا?ئند ہے، اس کے لئے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات کا کلیدی کردار ہے۔ فنکارملک کا نام روشن کرتے ہیں ،صحافیوں اور فنکاروں کی صحت کے حوالے سے اقدامات کا فقدان تھا،صحافی بعض اوقات انتہائی نامساعد حالات میں کام کرتے ہیں ، موجودہ حکومت نے صحافیوں کی فلاح وبہبود کیلئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کی سربراہی میں پنجاب میں عوام کیلئے صحت کارڈ کا اجرائ کیا گیا تھا ، ہیلتھ انشورنس کارڈ غریب عوام اور پسے ہوئے طبقات کے لئے نواز شریف کا بہت بڑاتحفہ تھا اور وہ پروگرام صرف اور صرف کروڑوں غریب لوگوں کے لئے تھا جو رزق حلال کماتیلیکن اپنی علاج کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے کہاکہ سابق حکومت نے جس ہیلتھ کارڈ کا اجرا کیا اس سے اگر وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے ذریعے نہ چلایا جاتا تو مجھے اس پر اعتراض نہ ہوتا۔ ا س بات کا خیال کئے بغیر کون حق د ار ہے کون حق دار نہیں اس پروگرام کا ناجائز استعمال کیاگیا اور عوام کے محدود وسائل کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ گزشتہ حکومت نے اس منصوبے کو بھی نوازنے کا ذریعہ بنادیا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوا سکتیہیں وہ مہنگے سے مہنگا علاج بھی کروا سکتے ہیں ان کے لئے علاج کے اخراجات برداشت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ خود بیرون ملک زیرعلاج رہے ہیں اور ان کے علاج پر اس وقت 80 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ غریب آدمی کیسے علاج کے بھاری ا خراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ ہم نے لاہور میں کڈنی اور لیور انسٹیٹیوٹ بنایا۔ وہاں پر جگر اور گردے کی ایک ہزار پیوند کاری ہو چکی ہے اور غریب مریضوں کو وہا ںمفت علاج ہوتاہے جبکہ سابق ثروت افراد سے علاج کے اخراجات لئے جاتیہیں۔