اسلام آباد:سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل مسترد کردی جب کہ 4 اپریل کو اپنے متفقہ فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 10 اپریل سے 8 اکتوبر کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو صوبے میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات 14 مئی کو کروانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن نے تیاری کے لیے عدالت سے مزید ایک ہفتے کی مہلت طلب کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا مؤقف بتائیں ہم بھی کیس کا جائزہ لیں گے۔وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ میں نے کیس میں اضافی گراؤنڈز تیار کیے ہیں، سب سے اہم سوال الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار کا تھا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 میں ترمیم ہوچکی ہے جس کے بعد اب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ وکیل صاحب ذہن میں رکھیں یہ نظرثانی کیس ہے، مرکزی کیس الگ تھا۔سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ کا پنجاب انتخابات سے متعلق تفصیلی فیصلہ ملا جس کی روشنی میں کچھ اضافی دستاویزات جمع کرانا چاہتے ہیں، عدالت نے کہا کہ جو فیصلہ آیا وہ کیس ختم ہوچکا، جواب ہمارے ساتھ عدالت میں ہی پڑھیں۔عدالت نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا نظرثانی کیس سے کوئی تعلق نہیں، انتخابات کی تاریخ دینے کا مقدمہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے، نظرثانی کیس میں جو نکات اٹھانا چاہتے ہیں، وہ بتائیں، مگر اس میں آپ دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے، لہٰذا یہ بتائیں کہ عدالتی فیصلے میں غلطی کہاں ہے؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین الیکشن کیشن کو اختیار نہیں، ذمہ داری دیتا ہے، صدر کی تاریخ تبدیل کرنیکا معاملہ بڑا اہم قانونی نکتہ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئینی اختیارات کو الیکشن کمیشن نے آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنا ہے۔جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا دلائل دے رہے ہیں، کبھی ادھر کبھی ادھر جارہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ تیسری مرتبہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن نے ذمہ داری کی روشنی میں اختیارات کا استعمال کرنا ہے، کمیشن کی ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کرانا ہے۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہوں گے مگر الیکشن کمیشن کہتا ہے تاریخ تبدیل کرنیکا اختیار ہے، البتہ عدالت الیکشن کمیشن کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتی اور نظر ثانی میں دوبارہ دلائل کی اجازت نہیں۔عدالت نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں دیتا، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے کی حد پر کچھ وجوہات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی معروضات کے بارے کچھ غلطیاں ہیں۔عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 218 شق تین کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات ‘آرگنائز اورکنڈکٹ’ کرانے ہیں، الیکشن کمیشن کو انتخابات آرگنائزر اور کنڈکٹ 90 روز کی آئینی مدت میں کرانے ہیں، الیکشن کمیشن نے یہ چھوٹ خود کو کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیر کر سکے؟عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن پانچ سال تک یقینی نہیں بناتا کہ انتخابات شفاف ہو سکیں گے تو کیا انتخابات نہیں ہوں گے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ یہ میری دلیل نہیں ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب بھی کہیں آئین کی خلاف ورزی ہوگی تو عدلیہ مداخلت کرے گی کیونکہ آئین کسی کی جاگیر نہیں ہے، کوئی بھی ادارہ آئین سے تجاوز نہیں کرسکتا اور آئین کے تحت الیکشن کمیشن تین ماہ میں انتخابات کروانے کا پابند ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد پنجاب انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کے خلاف درخواست خارج کردی۔