شیخوپورہ(بیوروچیف/شیخ محمد طیب سے) شراکت پارٹنرشپ فار ڈیویلپمنٹ کے زیراہتمام پنجاب گونمنٹ ای لائبریری ہال شیخوپورہ میں آگاہی پروگرام منعقد ہوا جس کے بعد پریس بریفنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں ذرعی انٹرپرائز کے ذریعے کوویڈ 19 کے بعد خواتین اور نوجوانوں کے لئے کاروبار اور ذریعہ معاش کی بازیابی پروجیکٹ کی تفصیل بتائی گئی، یہ پروجیکٹ راولپنڈی، اسلام آباد، مظفرگڑھ اور شیخوپورہ میں چل رہا ہے- ایگزیکٹو ڈائریکٹر میڈم بلقیس طاہرہ نے پروجیکٹ کا پسِ منظر اور مقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹینڈرڈ چارٹر بینک کی مالی معاونت اور برٹش ایشین ٹرسٹ کے ذریعے راولپنڈی، اسلام آباد میں 60 ، مظفرگڑھ میں 40 اور شیخوپورہ میں 20 کواپریٹو بنائے گئے- پسماندہ علاقوں کی ذرعی خواتین اور نوجوانوں کی کاروبار کے ذریعے مستقل روزگار کی طرف توجہ مبذول کروائی، اس پروجیکٹ کے ذریعے شیخوپورہ میں دیہی خواتین کے 20 کواپریٹو گروپس بنائے گئے جس میں 82 خواتین اور 18 مردوں کو ذرعی کاروباری افراد کے طور پہ کامیابی سے بااختیار بنایا ہے- اس منصوبے میں تکنیکی اور کاروباری مہارتوں کی ترقی کے ذریعے نوجوان کاروباری افراد کی مدد کرنے پر توجہ دی گئی جس میں کاروباری منڈیوں سے اہم ربابت اور مستقبل کی ترقی کے لیے مالی وسائل تک رسائی میں مدد شامل ہے، یہ طریقہ کار اس تحقیق پر مبنی تھا کہ صرف ہنر مندی سے پسماندہ لوگوں کو غربت سے نکالنا کافی نہیں ہے بلکہ مستقل ترقی کے لیے مارکیٹ فورسز میں خواتین کے حصہ کو یقینی بنانا ضروری ہے- دوران میڈیا بریفنگ ایگزیکٹو ڈائریکٹر میڈم بلقیس طاہرہ نے آگاہ کیا کہ اس منصوبے کا بنیادی مقصد کوویڈ 19 کی وبا سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا ہے جس نے پاکستان میں مالی طور پر کمزور لوگوں خصوصا خواتین اور نوجوانوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں، معاشی بحران کی وجہ سے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے 6 کروڑ 50 لاکھ افراد کی اکثریت غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی، چونکہ خواتین اور نوجوان بنیادی طور پر پاکستان میں غیر رسمی شعبے میں نوکری پیشہ ہیں جن کو کام کرنے کے مناسب حالات، تنخواہ اور نوکری کا تحفظ حاصل نہیں ہے- انہوں نے دوران بریفنگ بتایا کہ پاکستان کو بڑی مقدار میں اہم اور غیر اہم غذائی فصلیں پیدا کرنے کے باوجود غذائی تحفظ کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے، خاص طور پر غذائی تحفظ کے بحران کی وجہ سے خواتین غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں جو پہلے ہی معاشی سماجی اور غذائی تحفظ کی کمی کا سامنا کر رہی ہیں- پاکستان کے زراعت کے شعبے کو کوویڈ 19 کے اثرات کا 90 فیصد غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے، دیہی علاقوں میں 72 فیصد خواتین اور لڑکیاں زرعی شعبے میں کام کرتی ہیں، دیہی خواتین کو میری جان قیامت مختلف قسم کی صنفی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انہیں وسائل اور بازاروں تک رسائی سے روکتا ہے جس سے ان کی امدنی اور روزگار کے مواقع متاثر ہوتے ہیں اور مزید پستی اور غربت کی طرف لے جاتے ہیں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق کووڈ 19 کی وبا نے لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کی ہے جس نے ملازمتوں اور دوسرے معاشی مواقعوں سے محروم کر دیا ہے جس سے نمبر دو دیہی علاقوں میں خاص طور پر لوگوں کو غذائی قلت اور غربت کا سامنا رہا- اور انہوں نے بتایا کہ یہ پروگرام دیہی علاقوں میں خواتین اور نوجوانوں کے لیے روزگار اور خواتین کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے کمیونٹیز کی بحالی اور تباہ کو نتائج کو روکنے میں کافی اہم ثابت ہوا ہے- پریس کانفرنس میں اس پروجیکٹ کے کامیاب کاروباری بھی موجود تھے اور انھوں نے اپنی زندگیوں میں پروگرام کے اثرات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا- اس موقع پر نوکھر نو فاروق آباد سے شرکت کے لئے آئی شازیہ بی بی نے بتایا کہ اس منصوبے نے خواتین کو ان کے گھروں ہی سے روزگار کمانے کا ایک متبادل ذریعہ فراہم کیا ہے اور کاروباری تربیت کے ذریعے وہ بہتر طریقے سے کام کرنے کے قابل ہوئیں ۔ قلعہ ستار شاه ڈیره مسجد والا الفت یاسمین نے شراکت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ کاروبار کے حوالے سے ان کی صلاحتیوں کو بڑھایا گیا اور حساب کتاب اور پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت کے ذریعے انھوں نے ساتھی خواتین کی تربیت کی انہیں کاروباری مواقع سے اعتماد حاصل کرنے میں مدد ملی اور انھیں امید ہے کہ وہ اپنی کاروباری صلاحیت کو مزید وسیع بنانے سے ان کو بہتر زندگی کے مواقع حاصل سے ہوں گے۔ نے اپنی گفتگو میں اس بات پر بہت زور دیا کہ متعلقہ حکومتی اداروں اور وزارتوں کو چاہیے کہ وہ دیہی خواتین کی کاوشوں کو سرا ہیں اور اس کاروباری ماڈل کو مزید دیہاتوں تک پہنچائیں جس کے نتیجے میں یقیناً پاکستان غذائی قلت اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی