شکاگو:فضائی آلودگی بالخصوص 2.5 پی ایم کے ذرات دنیا بھر کی آبادی کو بیمار کررہے ہیں اور یوں ان کی اوسط زندگی کم کررہے ہیں۔یہ رپورٹ ایئرکوالٹی لائف انڈیکس نامی ادارے اور ویب سائٹ نے پیش کی ہے جسے ایک بھرپور ڈیٹا کہا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر دنیا بھر میں آب و ہوا کو عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار پر لایا جائے تو اس سے امراض کا بوجھ کم ہوگا، اوسط زندگی دو اعشاریہ تین برس بڑھے گی یعنی مجموعی طور پر دنیا والوں کی زندگی میں 17 ارب مزید برس کا اضافہ ہوسکیگا۔رپورٹ میں زور دے کر کہا ہے کہ آلودہ فیکٹریوں، گاڑیوں اور ایندھن وغیرہ کے جلنے سے پی ایم 2.5 نامی ذرات بھی خارج ہوتے ہیں۔ یہ پھیھپڑوں میں سرایت کرجاتے ہیں۔ خون میں شامل ہوجاتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کی وجہ بن رہے ہیں۔رپورٹ میں فضائی آلودگی کو تمباکو نوشی، شراب نوشی اور آلودہ پانی کے استعمال جیسا ہی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حیرت انگیز طور پر پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا، چین اور بھارت کو آلودہ ہوا و فضا کے مراکز کہا گیا ہے۔ عالمی فضائی آلودگی کا تین چوتھائی اثر اسی آبادی پر ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے۔رپورٹ کے مرکزی مصنف اور جامعہ شکاگو کے پروفیسر ڈاکٹر مائیکل گرین اسٹون کہتے ہیں۔ مذکورہ بالا چھ ممالک کے عام افراد اپنی اوسط زندگی کے چھ برس ا?لودگی میں کھورہے ہیں۔ ان کے مطابق ایشیا اور افریقہ میں صورتحال بہت خراب ہے جبکہ حکومتیں اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ نہیں۔ اس ضمن میں فوری اقدامات اور سخت پالیسیوں کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی فنڈ کے تحت لگ بھگ چار ارب ڈالر ٹی بی، ایڈز، ملیریا وغیرہ پر خرچ ہورہے ہیں لیکن فضائی آلودگی کے لیے نہ رقم ہے، نہ دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی واضح منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر پورے ایشیا کو آلودہ فضا کم کرنے کے لیے صرف 14 لاکھ ڈالر سالانہ دیئے گئے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔ ان ممالک میں چین، بھارت اور پاکستان فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارے صاف ہوا اور فضا کے لیے فنڈ قائم کرے۔