اسلام آباد:صدر مملکت عارف علوی نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کر دی۔ایوانِ صدر کی جانب سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط لکھا گیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کے سیکرٹری وقار احمد کی مزید خدمات درکار نہیں۔صدر کے پرنسپل سیکرٹری کی خدمات واپس لی جائیں۔خط میں مزید کہا گیا کہ حمیرا احمد کو صدر کا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا جائے۔
ایوانِ صدر کے آفیشل اکانٹ سے جاری ٹویٹ میں بھی بتایا گیا کہ گزشتہ روز کے قطعی بیان کے پیش نظر صدر سیکرٹریٹ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط لکھا ہے کہ صدر کے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ہے اور انہیں فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے کر دیا گیا ہے۔خط میں گریڈ 22 کی افسر حمیرا احمد کو صدر مملکت کی سیکرٹری تعینات کرنے کی سفارش کی گئی۔
کل کے واضح بیان کے پیشِ نظر ایوانِ صدر نے صدر مملکت کے سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کردیں
ایوانِ صدر کا وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام خط
وقار احمد، صدر مملکت کے سیکرٹری، کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں، ایوانِ صدر
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) August 21, 2023
۔یاد رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کردی تھی۔اتوار کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر)پر جاری بیان میں عارف علوی نے کہا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا کہ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر)واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں، تاہم مجھے اب پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔انہوں نے لکھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دئیے ہیں جس سے دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں بلوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کی شدید تنقید کے باوجود منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا تھا۔
سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن (6ای)انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے، اس جرم کی سزا 3 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گی۔آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو یا ہو سکتی ہو، اسے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگی۔