لاہور: ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کو عبوری ریلیف دیتے ہوئے فوری طور پر نیب کی تحویل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے حکم دیا کہ کوئی اتھارٹی یا ادارہ انہیں گرفتار نہیں کرے تاہم کمرہ عدالت سے نکلتے ہی انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔جسٹس امجد رفیق نے پرویز الہی کی نیب میں گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ نیب کی جانب سے پرویز الہی کو عدالتی حکم پر 11.50 منٹ پر عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے فوری عبوری ریلیف دیتے ہوئے پرویز الہی کو نیب تحویل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ انکوائری ہوگی کہ عدالتی حکم کے باوجود پرویز الہی کو کیوں گرفتار کیا گیا۔واضح رہے کہ عدالت میں گزشتہ روز نیب پراسیکیوٹر نے یقین دہانی کروائی تھی کہ پرویز الہی کو جمعہ کی صبح 10 بجے پیش کردیا جائے گا لیکن عدالتی حکم کے باوجود ایک مرتبہ پھر پرویز الہی کو عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا گیا۔
سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ بتائیے پرویز الہی کدھر ہیں، کیوں عدالت پیش نہیں کیا گیا؟ وکیل پنجاب حکومت غلام سرور نہنگ نے موقف اختیار کیا کہ نیب نے پنجاب حکومت کو سکیورٹی کے لیے خطوط لکھے ہمیں کل کی سماعت کا تحریری حکم نہیں ملا۔عدالت نے باور کرایا کہ تحریری حکم کل ہی جاری ہوچکا تھا اس کا مطلب ہے آپ نے پرویز الہی کو پیش نہیں کرنا۔ نیب پراسکیوٹر کا موقف تھا کہ ہم پرویز الہی کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پرویز الہی کی زندگی کو شدید خطرات ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کی عزت انہی عدالتوں سے ہے۔
جسٹس امجد رفیق نے ایک بار پھر حکم دیا کہ پرویز الہی کو ایک گھنٹے میں پیش کریں۔ آپ پنگ پانگ کھیل رہے ہیں۔ کئی مرتبہ پرویز الہی کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جاچکا ہے۔ جسٹس امجد رفیق نے واضح ہدایات جاری کیں کہ حکومت کو چھوڑیں، آپ پرویز الہی کو پیش کریں۔ حکومت نیب کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تو نہ کرے۔عدالت نے ایک گھنٹے میں پرویز الہی کو پیش کرنے کا حکم دیا اور باور کرایا کہ اگر پرویز الہی کو پیش نہ کہا گیا تو ڈی جی نیب کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔
عدالتی حکم پر سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کو عدالت میں پیش گیا۔ عدالتی حکم کے بعد نیب حکام پرویز الہی کے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہماری طرف سے فری ہیں، آپ جاسکتے ہیں ۔پرویز الہی کے وکلا کا موقف تھا کہ عدالتی تحریری حکم ملنے کے بعد عدالت سے روانہ ہوں گے۔
پرویز الہی کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ پرویز الہی روسٹرم پر آگئے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے واضح حکم کے باوجود عدالت کے باہر یونیفارم اور بغیر یونیفارم کے بھاری نفری موجود ہے، لگ رہا ہے پرویز الہی کو دوبارہ گرفتار کرنے کا پلان ہو چکا ہے، عدالتیں بنیادی حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دیتی ہیں، پولیس عدالت کے باہر کھڑی ہے، عدالت کو چاہیے کہ وہ پولیس کو حکم دے کہ پرویز الہی کو گھر تک سیکیورٹی دی جائے۔
جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ ہم پنجاب پولیس کے کسی افسر کو کہتے ہیں وہ پرویز الہی کو گھر چھوڑ آئیں، جسٹس امجد رفیق نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو بلا لیا۔ ایس پی اقبال ٹان کو عدالت نے روسٹرم پر طلب کرلیاجسٹس امجد رفیق نے کہا کہ آپ ایک دو افسران اور لیں اور پرویز الہی کو گھر چھوڑ کر آئیں اس پر ایس پی نے کہا کہ جو عدالت کا حکم ہوگا اس پر عمل کریں گے۔جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ مکمل ذمہ داری آپ کی ہو گی اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار آپ ہوں گے۔
پولیس والے پرویز الہی کی دوبارہ گرفتاری کیلیے نیب سے لڑپڑے، نیب کا دوبارہ گرفتاری سے صاف انکار،پرویز الہی کی پیشی کے موقع پر نیب اہل کاروں اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور دونوں جوانب سے ایک دوسرے کو دھکے دیے گئے، پولیس اہلکار پرویز الہی کو لانے والے نیب اہل کاروں سے الجھتے رہے اور انہیں پرویز الہی کو دوبارہ گرفتار کرنے کا کہتے رہے مگر نیب نے پرویز الہی کے رہائی کے حکم کے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔
پولیس اہلکار نیب اہل کاروں کی پرویز الہی کو دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے منت سماجت بھی کرتے رہے مگر نیب افسران نہ مانے۔ اس دوران پولیس اور نیب اہلکاروں کے مابین ہاتھا پائی ہوگئی۔ایک نیب آفیسر نے کہا کہ پولیس کی وجہ سے گالیاں ہم نہیں سن سکتے۔ نیب آفیسر کے حکم تمام افسران اور اہلکار لاہور ہائیکورٹ سے روانہ ہوگئے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس امجد رفیق نے پرویز الہی کی رہائی کا تحریری حکم جاری کردیا جس میں عدالت نے پرویز الہی کو نیب اور کسی بھی اتھارٹی کی جانب سے گرفتار کرنے سے روک دیا۔تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ کوئی اتھارٹی، ایجنسی اور آفس، درخواست گزار کو گرفتار نہ کرے، پرویز الہی کو نظر بندی کے قانون کے تحت بھی حراست میں نہ لیا جائے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پرویز الہی کو کسی انکوئری، مقدمے میں گرفتار کرنے سے روکا تھا، نیب نے پرویز الہی کو اس وقت گرفتار کیا جب سنگل بینچ کا فیصلہ معطل تھا، دو رکنی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیل مسترد کی اور سنگل بینچ کا بحال کردیا تھا، دو رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد نیب کی حراست غیر قانونی تھی۔
حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پر درخواست گزار کو عدالت میں پیش کیا گیا یہ عدالت درخواست گزار کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہے ۔عدالت نے نیب کو آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی اور سماعت 21 ستمبر تک ملتوی کردی۔